مجذوب یوں تیز قدم اٹھاتا چل رہا تھا، جیسے کہیں پہنچنے کی جلدی ہو۔ پھر وہ ایک دم سے بیٹھ گیا۔ بیٹھ کیا گیا ، ساکت ہو گیا۔ اس کے جسم میں تو کُجا ، کپڑوں میں بھی جنبش نہیں تھی۔ حالاں کے کافی تیز ہوا چل رہی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھاکر پرتاب سنگھ تیزی سے آگے بڑھا۔ نا جانے کیوں وہ پریشان ہو گیا تھا۔ مجذوب اس سے کچھ بیس قدم دور تھا۔
ٹھاکر اس کے پاس پینچا اور اس کے آگے کی طرف پھیلے ہوئے ہاتھ کو چھو کر دیکھا ۔ وہ حیران ہو گیا ۔ مجذوب کا ہاتھ برف کی طرح سرد ہو رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھاکر سیدھا کھڑا ہوا اور اس نے مجذوب کو غور سے دیکھا۔ اس کا دل تاسف سے بھر گیا ۔ مجذوب کے سینے میں سانسوں کا تموج بھی نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ تو کوئی اچھا شگون نہیں۔ آج کے شبھ دن تو ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اور ہونا تھا تو کم از کم یہاں نا ہوتا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجذوب کے ہاتھ پیر دھول میں آٹے تھے۔ اسکا کُرتا جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ اور اگر پاجامے سے پیوند نکال دیے جاتے تو شاید کچھ نا بچتا۔۔ اس کے سر کے بالوں اور بڑھی ہوئی بے ترتیب داڑھی میں سیاہ بال نام کو بھی نہیں تھا،، بلکہ اس کا چہرہ جوان تھا اور بچوں کی سی معصومیت جھلکتی تھی۔ اور آنکھیں بند تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھاکر بڑا دبدبے والا آدمی تھا۔ لیکن اس چہرے کو دیکھ کر مرعوب ہو گیا۔۔ وہاں مرنےکے بعد بھی عجیب طرح کا جاہ وجلال تھا۔ چہرے کا ایک ایک نقش ڈانٹتا گرجتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ مگر اسی لمحے میں ٹھاکر کے دماغ میں ایک شک نے سر ابھارا۔ آدمی یوں تو نہیں مرتا۔ اگر یہ مر گیا ہے تو اس کا جسم ڈھلکا کیوں نہیں۔ یہ خیال آتے ہی اُس نے ہاتھ بڑھا کر مجذوب کی پیشانی کو چُھوا۔ لیکن وہ بھی برف کی طرح سرد تھی۔ ٹھاکر کو بہت شدید جھٹکا لگا۔۔ وہ بے ساختہ اور بلا ارادہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اسکے ہاتھ میں ایسی سوزش ہو رہی تھی جو جلنے کے وقت ہوتی ہے۔۔اس نےگھبرا کر اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اسکو یقین تھا کہ وہاں جلنے کا نشان ہو گا۔ مگر وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ -----------------
چند لمحوں میں اس کی سوزش ختم ہو گئی اور اس کی گھبراہٹ بھی دور ہو گئی۔ اسے یقین ہو گیا کہ مجذوب مرا نہیں ہے بلکہ زندہ ہے۔ مگر اب وہ مجذوب کی طرف دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اس طرف سے توجہ ہٹی تو اسے محسوس ہوا کہ اب اندھیرا چھا رہاہے۔۔۔ ابھی اس طرف آتے ہوئے اس نے دیکھا تھا کہ سورج دیوتا اپنی کرنوں کی موجیں سمیٹ کر دوسری طرف چڑھائی کرنے کے لیے جارہا ہے۔ اور اب اسکے تاراج کیے ہوئے آکاش پراسکے قدموں کے سُرخ نشان بھی مٹے جارہے تھے۔ اندھیرا کسی بڑے باز کی طرح پر پھیلائے ہوئے دھرتی پر اُترے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی ٹھاکر کی نظر مجذوب کی طرف اٹھے جار ہی تھی اور اس نے سوچا کہ واپس لوٹ جائے ۔وہ جو سمجھ کر آیا تھا، یہ وہ پُر اسرار مجذوب نہیں تھا لیکن دوسری نظر میں اسے لگا کہ یہ وہی ہے یہ عجیب معما تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹آگے جاری ہے🌹🌹🌹🌹🌹
عشق کا ،شین
Reviewed by The Knowledge book
on
August 18, 2020
Rating: 5
No comments